آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

تاریخ ، کر رہی ہے ثنا تیرے خُون کی


سچّائی کی جڑوں میں تِری اِستقامتیں

دیں کی ہتھیلیوں پہ حِنا تیرے خُون کی


اِنسانیّت کی رُوح میں تیری شباہتیں

تہذیب کے بدن پہ قبا تیرے خُون کی


جمہُوریت کی نہر تِری پیاس کا کمال

مظلومیت کی جیت عطا تیرے خُون کی


چسپاں ، تِرا کٹا ہُوا سر ہر وجُود پر

ہر ذہن میں ہو نشو ونما تیرے خُون کی


اُڑتی ہے بُوئے صبر و رضا تیری خاک سے

بانٹے یقیں کے پھُول ہوا تیرے خُون کی


بیداریِ ضمیرِ دو عالم کے واسطے

سُورج بھی مانگتا ہے ضیا تیرے خون کی


پیشانیِ اُفق پہ مظفّر کے سامنے

یہ دھاریاں سی ہیں بخدا تیرے خُون کی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

یا حسین ابن علی تیری شہادت کو سلام

حضرتِ عثمانؓ کے ذوقِ عبادت کو سلام

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا

قرآن کے پاروں پہ لہو جس کا گرا ہے

کٹنے والی گردنیں، نام و نشانِ کربلا

اس قدر تیری حرارت مرے ایمان میں آئے

نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

رضائے غوث احمد کی رضا ہے

ؓجاں نثاروں کو تیرے مثل بلال حبشی