آپ کا در اقدس فیضِ شاہ شاہاں ہے

آپ کا در اقدس فیضِ شاہ شاہاں ہے

جس کا ایک ایک ذرّہ آفتابِ ایماں ہے


کُل احاطہ بابا، خلد صد بہاراں ہے

حُسنِ گُل تو کیا کہیے خار بھی رگِ جاں ہے


رحمتوں کی بارش میں کون تشنہ لب ہوگا

شہر کا ہر اک گوشہ وقف جامِ عرفاں ہے


اے خدا سلامت رکھ عرس کی محافل کو

ان بزرگوں کے دم سے کیف بزمِ امکاں ہے


زائرین کی نظریں کیسے حسن پر ٹھہریں

عرس کا ہر اک گوشہ رشک برقِ تاباں ہے


روح میں حسینیّت ، قلب میں معینیّت

جذبہء فریدیت ، شاہکارِ ایماں ہے


بارگاہِ بابا کا اے صبیحؔ ہر منظر

فیض قلب قطب الدیں ، لطفِ شاہ جیلاں ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

عزم حسین سرِ حق ایثار اولیاء

ایمان کا نشان ہیں سلمان فارسی

عرش بر دوش پایانِ حسّان ہے

مرے آسمانِ دل پہ کچھ عجب گھٹا سی چھائی

معین دین و عطائے رسول ہیں خواجہ

سندھ کا باغِ جناں ہیں حضرتِ عبد اللطیف

کس کے دل کی ہیں دُعا حضرتِ سچل سرمست

سادات کا نشاں ہیں مشرف حسین شاہ

حُسنِ معنویت میں حُسنِ جاوداں حسّان

فخر تاج سلطاں ہے جب نعال کر مانی