بہتے بہتے پکارا لہو

بہتے بہتے پکارا لہو

قاتلوں سے نہ ہارا لہو


حریّت زیرِ تعمیر تھی

کیوں نہ ہوتا صف آرا لہو


زندگی کا مسافر شہید

عشق کا استعارہ لہو


آگ خیمہ، طنابیں ہوائیں

ریت دریا، کنارہ لہو


صبر کے پاسباں قہقہے

ظلم آنکھیں، نظارا لہو


روشنی کا سفر ہے جہاد

کربلا چاند ، تارہ لہو


زورِ مظلوم بھی کم نہیں

توڑ دے ہر اجارہ لہو


اپنی تاریخ نُصرت مآب

فتح کا گوشوارہ لہو


وقف ہے دین کے واسطے

ان رگوں کا بھی سارا لہو


سر خرو ہوں مظفر اصول

خاک پر بھی گوارا لہو

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

آج پھر عہدِ گز شتہ کی صدا آئی ہے

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِاعظمؒ

مولا حسنؑ کو حیدری فرمان دیکھئے

کربلا کے جاں نثاروں کو سلام

صدقہ تم پر ہوں دل و جاں آمنہ

جہد و زُہدِ انبیاء گنجِ شکر بابا فریدؒ

اہل حق کے مقتدا عثمانِ ذوالنورین ہیں

دل رُبا دل نشیں معینُ الدّیںؒ

جب اندھیروں کے سبب کُچھ بھی نہیں تھا روشن

سلام اُن کے نام پر نبیؐ کے نورِ عین ہیں