دل رُبا دل نشیں معینُ الدّیںؒ

دل رُبا دل نشیں معینُ الدّیںؒ

بھُولتے ہیں کہیں ، معینُ الدّیںؒ؟


واقفِ سرِّ دیں معینُ الدّیںؒ

نازِ اہلِ یقیں ، معینُ الدّیںؒ


زُبدۃُ العارفیں ، معینُ الدّیںؒ

حق جہاں ہے وہیں ، معینُ الدّیںؒ


ہو گئی اُن سے دین کی تجدید

رُوحِ دینِ مُبیں ، معینُ الدّیںؒ


رہبرِ سالکانِ راہِ طلب

منزلِ اہلِ دیں ، معینُ الدّیںؒ


ہم نے ہر سُو نگاہ دوڑائی

کوئی تُم سا نہیں ، معینُ الدّیںؒ


جس نے چُومے ترے قدم اک بار

ہے فلک وہ زمیں ، معینُ الدّیںؒ


لوحِ ہستی پہ جگمگاتے ہیں

بن کے نقشِ حسِیں ، معینُ الدّیںؒ


تُم سے روشن ہے جادہء اُلفت

سوزِ جاں کے امیں ، معینُ الدّیںؒ


بات ہر اک تمہاری مثلِ گُہَر

لفظ اک اک نگیں ، معینُ الدّیںؒ


غم و آلام نے جہاں گھیرا

یاد آئے وہیں ، معینُ الدّیںؒ


خادمِ آستانِ عالی ہے

یہ نصیرِؔ حزیں ، معینُ الدّیںؒ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

رتبے میں ہو نجی تو وہی شان چاہیے

زمین آپ کی ہے اور آسمان آپ کا

اس طرح تُو نے ہر انساں سے محبّت

اللہ نے پہنچایا سرکارؐ کے قدموں میں

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

آمدِ شہ پر سجے ہیں مشرقین و مغربین

وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

لَحَد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

نہ ہوتا در محمدّؐ کا تو دیوانے کہُاں جاتے