نہ ہوتا در محمدّؐ کا تو دیوانے کہُاں جاتے

نہ ہوتا در محمدّؐ کا تو دیوانے کہُاں جاتے

خدا سے اپنے دل کی بات منوانے کہاں جاتے


جنہیں عشقِ محمدؐ نے کیا ادراک سے بالا

حقیقت اِن تمنّاؤں کی سمجھانے کہاں جاتے


خدا کا شُکر ہے یہ حجرِ اسود تک رسائی ہے

جنہیں کعبے سے نسبت ہے وہ بُتخانے کہاں جاتے


اگر آتی نہ خوشبوئے مدینہ میری آنکھوں سے

جو مرتے ہیں نہ جلتے ہیں وہ پروانے کہاں جاتے


سِمٹ آئے مری آنکھوں میں حُسنِ زندگی بن کر

شرابِ درد سے مخمور نذرانے کہاں جاتے


چلو اچھا ہوا ہے نعتِ ساغرؔ کام آئی ہے

غلامانِ نبیؐ محشر میں پہچانے کہاں جاتے

شاعر کا نام :- ساغر صدیقی

کتاب کا نام :- کلیاتِ ساغر

دیگر کلام

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی

سرمایۂ حیات ہے سِیرت رسولؐ کی

لبوں پہ جس کے مُحمدّؐ کا نام رہتا ہے

ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا

جس طرف چشمِ محمدّؐ کے اشارے ہوگئے

یہ کہتی ہیں قضائیں زندگی دو چار دن کی ہے

جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

مائلِ جور سب خدائی ہے

ہے تقدیسِ شمس و قمر سبز گُنبد

آنکھ گلابی مست نظر ہے