جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

ذرّے ذرّے کو طُور کہتا ہُوں


شامِ بطحا کی زَر فشانی کو

مطلعِ صُبح نُور کہتا ہُوں


بوریا جو تری عنایت ہے

اس کو تخت سمور کہتا ہُوں


رِند اور مدحتِ نبیؐ یارو

شانِ ربِّ غفور کہتا ہُوں


تشنگی اور یادِ کربل کو

جَامِ کیف و سُرور کہتا ہُوں


ایک اُمّی نبیؐ کو اے ساغرؔ

تاجدارِ شعُور کہتا ہُوں

شاعر کا نام :- ساغر صدیقی

کتاب کا نام :- کلیاتِ ساغر

دیگر کلام

غریباں دا بن دا اے

کرم آج بالائے بام آ گیا ہے

ہزار بار ہوئی عقل نکتہ چیں پھر بھی

آج کی اَقدار ہُوں ماضی کی عظمت بھی تو ہُوں

خلق کے سرور ، شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم

ؐیا شفیع المذنبیںؐ یا رحمتہ اللعالمیں

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

آئی بہارِ زیست مُقدّ ر سَنبھل گئے

یقین حاوی سا ہے گماں پر

اُن کا چہرہ ، کتاب کی باتیں