ساغر صدیقی

اے کاش وہ دن کب آئیں گے

ڈوبتے والوں نے جب نام محمدﷺ لے لیا

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ آئے

محمدؐ باعثِ حُسنِ جہاں ایمان ہے میرا

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی

سرمایۂ حیات ہے سِیرت رسولؐ کی

لبوں پہ جس کے مُحمدّؐ کا نام رہتا ہے

ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا

جس طرف چشمِ محمدّؐ کے اشارے ہوگئے

نہ ہوتا در محمدّؐ کا تو دیوانے کہُاں جاتے

یہ کہتی ہیں قضائیں زندگی دو چار دن کی ہے

جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

مائلِ جور سب خدائی ہے

ہے تقدیسِ شمس و قمر سبز گُنبد

آنکھ گلابی مست نظر ہے

غم کے ماروں کا آسرا تم ہوؐ

اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے

چمک جائے گا تشنگی کا نگینہ

دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفیٰؐ آؤ

یثرب کی رہگذار ہو اور پائے آرزو

اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں

گُلوں کے اشارے دُعا کر رہے ہیں

لیتا ہُوں نام خُلد کا طیبہ نگر کے بعد