یقین حاوی سا ہے گماں پر
زمین پر ہُوں کہ آسماں پر
میں ہُوں نہیں ہُوں جو ہوں تو کیا ہوں
دَرِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہُوں
نہ رنگِ نام و نمود میرا
نہ سایۂ ہست و بود میرا
خنک خنک نُورِ مصطفےٰ سے
پِگھل رہا ہے وجُود میرا
جمالِ سرکار ضَوفشاں ہے
نگاہ بھی درمیاں کہاں ہے
سراپا آنکھیں بنا ہوا ہوں
دَرِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہُوں
یہ دِید معراج ہے نظر کی
یہی کمائی ہے عُمر بھر کی
رئیسِ لیل و نہار ٹھہرا
طلب ہو کیا مجھ کو مال و زر کی
شُعور و عرفان و آگہی سے
خزانۂ جلوۂ نبی سے
تجوریوں کی طرح بھرا ہُوں
دَرِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہُوں
حیات کو جس کی دُھن رہی ہے
وُہ قُرب کے پھُول چُن رہی ہے
سلام کا بھی جواب گویا
سماعتِ عشِق سُن رہی ہے
اب اور کیا مانگنا ہے رب سے
کہ ہاتھ باندھے ہُوئے ادب سے
حضورؐ کے سامنے کھڑا ہُوں
دَرِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہُوں
یہ روضۂ شاہ انبیا ہے
کہ کُرسیِ عرشِ کبریا ہے
بندھا ہے درباریوں کا تانتا
عجیب اندازِ تخلیہ ہے
بغیر اجازت ہو باریابی
سیاہیِ دِل ہو آفتابی
میں زنگ خوردہ چمک اُٹھا ہوں
دَرِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہُوں
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی