فلک نشاں، عرش مرتبت، کہکشاں قدم، خوش نظر خدیجہؑ
بدن صداقت ہے سر خدیجہ، صدف شرافت، گہر خدیجہؑ
خدا کے دینِ مبیں کے زخموں کی دہر میں چارہ گر خدیجہؑ
وہ آل کی مادرِ گرامی، رسولؐ کی ہم سفر خدیجہؑ
اسی کے دم سے جہاں میں مہر و وفا کا چشمہ ابل رہا ہے
نبی کا دیں آج تک اسی محسنہؑ کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے
سنو اسی نے کیا مرتب نساء کا دستورِ حکمرانی
بڑے سلیقے سے کر گئی ہے رخِ رسالت کی پاسبانی
سنوار دی اس کی تربیت نے کچھ اس طرح حق کی نوجوانی
پیمبریؐ خود پکار اٹھی، ترا کرم، تیری مہربانی
جو تو نہ ہوتی تو کون مشکل میں دیں کی مشکل کشائی کرتا
ترے سوا کون بے نوا کبریا کی یوں ہمنوائی کرتا
جہانِ باطل کی ظلمتوں میں مثالِ شمعِ حرم خدیجہ
عرب کے صحرا میں چھا گئی بن کے عکسِ ابرِ کرم خدیجہ
ازل سے لے کر ابد تلک دینِ حق کا ہے اک بھرم خدیجہ
تمام ازواجِ انبیاء میں ہے اس لیے محترم خدیجہ
کسی کا شوہر نہیں ہے ختمِ رسل، شہِ مشرقین جیسا
نہیں ہے بیٹی بتول جیسی، نہ ہے نواسہ حسین جیسا
عرب کے راجہ کے من کی دیوی، عجم کے سلطاں کی شاہزادی
اسی کے دم سے ہوئی منور حجاز کی بے چراغ وادی
اسی کی اک شاخ کے ثمر ہیں حریمِ حق کے تمام ہادی
کبھی مسائل کو حل کیا ہے کبھی مصائب پہ مسکرا دی
یہ مسکرا دی تو مسکراہٹ کا نام قرآن ہوگیا ہے
اسی کا دامن بکھر کے دنیا میں آلِ عمران ہوگیا ہے
کہاں یہ ممکن ہے خود پرستی کے دور میں ہو خدا پسندی
مگر خدیجہ نے دشتِ زر میں بھی کی ہے عقبیٰ کی خشت بندی
یہی خدیجہؑ ہے جس کو حاصل ہے مصطفیٰ کی نیازمندی
جو منصفی ہو تو کم نہیں ہے کسی سے رتبے کی یہ بلندی
ابھی یہ رتبہ کچھ اور اونچا بحکمِ ربِ جلیل ہوگا
بروزِ محشر اسی کا داماد ساقی سلسبیل ہوگا
خدا کے محبوب کے خدو خال پر غضب کا شباب آیا
شباب آیا تو سرزمینِ عرب میں اک انقلاب آیا
مثال یہ ہے کہ دو پہر کی حدوں پہ جب آفتاب آیا
سوال بننے لگی رسالت تو پھر مکمل جواب آیا
پیمبریؐ جنسِ بے بہا تھی مگر یہ سودا بھی نقد ہوگا
درود پڑھ لو کہ مصطفیٰ کا ابھی خدیجہ سے عقد ہوگا
شفق شفق ہے زمیں کا چہرہ فلک سے تارے اتر رہے ہیں
ہوا میں خوشبو رچی ہوئی ہے فضا میں غنچے بکھر رہے ہیں
یہ صف بہ صف انبیاء کے جھرمٹ سبھی کے چہرے نکھر رہے ہیں
یہاں لکیریں بدل رہی ہیں وہاں مقدر سنور رہے ہیں
قضا کی مسند پہ اب جو بیٹھا وہی جنابِ خلیل ہوگا
گلابیاں جو چھڑک رہا ہے وہ دیکھنا جبرئیل ہوگا
جنابِ یعقوب کی بصیرت تمام محفل میں بٹ رہی ہے
وہ دور، یوسف کی نوجوانی نقاب رخ سے الٹ رہی ہے
تمام عالم کی چاندنی ایک دائرے میں سمٹ رہی ہے
یہ بزم کی بزم کس لیے آج رنگ و نکہت سے اٹ رہی ہے
یہ کن کے قدموں کی خاک عیسیٰ خود اپنی آنکھوں پہ مل رہے ہیں
یہی تو ہیں جن کی دست بوسی کو انبیاء بھی مچل رہے ہیں
یہ آلِ ہاشم کا آسرا ہے یہ چشمِ انسانیت کا تارا
یہ پاسبانِ حریمِ وحدت یہ بحرِ انصاف کا کنارا
یہ زمزمہ خوانِ آبِ زمزم خدا کے گھر کا اٹل سہارا
عجم کے ماتھے کا شوخ جھومر، عرب کی دھرتی کا اک دلارا
جنابِ عمراں ہے نام اس کا یہ فطرتاً مہربان ہوگا
یہ کلِ ایماں کی سلطنت کا عظیم تر حکمران ہوگا
وہ دیکھ عقدِ نبی کا خطبہ جناب عمراں پڑھا رہے ہیں
مزاجِ توحید وجد میں ہے تو انبیاء مسکرا رہے ہیں
ادب سے حوریں ہیں سر بہ زانو، ملک فلک کو سجارہے ہیں
مگر مجھے اس گھڑی سقیفہ کے کھیل کچھ یاد آرہے ہیں
اگر صداقت جنابِ عمراں کی حق و باطل کی حد میں ہوگی
تو یادرکھنا کہ خود نبوت تمہارے فتووں کی زد میں ہوگی
اگر مسلماں نہیں ہے عمراں تو پھر نکاحِ رسول باطل
اگر نکاحِ رسول باطل تو دیں کا رد و قبول باطل
جو دیں کا رد و قبول باطل تو پھر فروع و اصول باطل
اگر فروع و اصول باطل تو آدمیت فضول باطل
جسے بھی عمراں کے دیں کو تشکیک کا ہدف بنانے کا شوق ہوگا
وہ سوچ لے حشر تک اسی کے گلے میں لعنت کا طوق ہوگا
ادھر وہ ہاشم کا لخت دل ہے، ادھر خویلد کی آبرو ہے
ادھر ہے اخلاق کا سمندر، ادھر محبت کی آبجو ہے
ادھر ازل سے امین و صدیق، ادھر حقیقت کی جستجو ہے
یہ دونوں معصوم یوں ملے ہیں، شرف شرافت کے روبرو ہے
کھنچا ہوا ہے افق سے تا بہ افق خطِ مستقیم ایسا
کہاں ہے تصویرِ صدق ایسی کہاں ہے درِ یتیم ایسا
پیمبریؐ پر ترے کرم کی کہانیاں ہیں طویل بی بی
مگر میری زندگی کی مدت ہے ایک پل سے قلیل بی بی
کھلے ہیں جس میں کنول حیا کے تو ہے وفا کی وہ جھیل بی بی
یہ حد نہیں ہے کہ تیرے در کا غلام ہے جبرئیل بی بی
مری جبیں تیرے آستاں کے سوا کسی در پہ خم نہیں ہے
کہ تیرے نقشِ قدم کی مٹی بھی آسمانوں سے کم نہیں ہے