خورشیدِ شجاعت کی کرن ہے مرا مختار
بے خوف خیالوں کا بدن ہے مرا مختار
اسرارِ عقیدت کا چمن ہے مرا مختار
دھرتی پہ دلیری کا گگن ہے مرا مختار
مختار کی ہیبت ہے وہ اربابِ ستم میں
رعشہ نظر آتا ہے مورخ کے قلم میں
مختار کو ہم لوگ بڑھاتے نہیں حد سے
لیکن ہمیں نفرت ہے زمانے کے حسد سے
اب تک جو سر افراز ہو سرورؑ کی مدد سے
محشر میں ملے داد جسے حق کے اسد سے
ایسا کوئی ساونت، جری، حر نہیں دیکھا
مختار سا پھر کوئی بہادر نہیں دیکھا
بجلی کو کبھی گر کے پلٹتے ہوئے دیکھو
یا جنگ میں دھرتی کو الٹتے ہوئے دیکھو
طوفاں کبھی قطروں میں سمٹتے ہوئے دیکھو
چڑیوں پہ عقابوں کو جھپٹتے ہوئے دیکھو
چومے جو کبھی موت کوئی زرد سا ماتھا
تم سوچنا، مختار کی تلوار میں کیا تھا
اے قسمت اسلام کے منحوس ستارو
طغیانیِ تشکیک کے بہتے ہوئے دھارو
اے مکہ تہِ خاک سقیفہ کے کنارو
چہروں سے ریا پاش نقابیں تو اتارو
پہلے کسی ملعون کی تائید کرو تم
پھر شوق سے مختار پہ تنقید کرو تم
مختار کا چہرہ ہے کہ صبحوں کا ورق ہے
ماتھا ہے کہ اک صفحہء انجیل ادق ہے
رخسار کی رنگت ہے کہ اعجازِ شفق ہے
ہونٹوں پہ دھنک ہے کہ یہ دیباچہء حق ہے
حملے ہیں کہ آثار پیمبرؐ کی دعا کے
مختار کے بازو ہیں کہ پرچم ہیں قضا کے
آنکھیں ہیں کہ فانوس رخِ عرشِ بریں پر
پلکیں ہیں کہ جھومر ہیں ستاروں کی جبیں پر
زلفیں ہیں کہ بادل سے رخِ مہرِ مبیں پر
ہیبت ہے کہ اک حشر سا کوفے کی زمیں پر
یہ پھول یہ جگنو یہ فلک تاب ستارے
مختار کی تلوار سے جھڑتے ہیں شرارے