شفق سے پوچھ لیں آؤ بتاؤ ماجرا کیا ہے
سجا ہے پھر کہیں مقتل کہ پھر ہے کربلا کیا ہے
سنا ہے چرخ پہ پھیلی تھی لالی خونِ نا حق کی
اُسی دن سے تو قائم ہے ترا یہ سلسلہ کیا ہے
اے دشتِ کار زارِ نینوا یہ تو دکھا مجھ کو
وہ رنگیں ہے کہ سادہ ہے مصوّر نے کِیا کیا ہے
فراتِ بے بسی تیرے کنارے پھول کملائے
رحیقِ زندگی تیری شہیدوں سے وفا کیا ہے
ستارو! یہ بتاؤ تم شبِ عاشور کیسی تھی
جو تھے معصوم بچے ان کا اُس دن حوصلہ کیا ہے
مجیدؔ اس دنیا کے منصف تعیّن کر نہیں سکتے
خدا ہی جانتا ہے قتلِ عترت کی سزا کیا ہے
شاعر کا نام :- عبد المجید چٹھہ
کتاب کا نام :- عکسِ بو تراب