سخنوری میں زیر اور زبر کہے علیؑ علیؑ

سخنوری میں زیر اور زبر کہے علیؑ علیؑ

جو لفظ بن گیا گہر، گہر کہے علیؑ علیؑ


زمین سے نظر ہٹی، گئی فلک سے پار جب

جہاں گئی جدھر گئی نظر کہے علیؑ علیؑ


علی مری تو سانس میں اتر گئے کچھ اس طرح

یہ تن کہے، یہ من کہے، جگر کہے علیؑ علیؑ


ضیائے شمس میں گیا، نگاہِ شمس نے کہا

چلو گے جس طرف بھی رہگزر کہے علیؑ علیؑ


ثمر سے پوچھنے گیا ، بتاؤ مولا کون ہے

ثمر کی بات سن کے پھر شجر کہے علیؑ علیؑ


میں شب سے پوچھتا رہا، کہ ہے تری امید کیا

تو شب کے ساتھ جھوم کر سحر کہے علیؑ علیؑ


سفر جو وحدتوں کا ہے، وہ کثرتوں میں ڈھل گیا

نگر نگر میں گھوم کر سفر کہے علیؑ علیؑ


کرن کرن جو چاندنی سے پھوٹتا ہے فضل بھی

وہ بحر و بر میں جا کے بے خطر کہے علیؑ علیؑ


میں قائم الصلواۃ ہوں ،میں بندگی کی ذات ہوں

سجود کا ،قیام کا ہنر کہے علیؑ علیؑ

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

قصیدۃ مجیدۃ مقبولۃ اِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰیفی منقبتِ سیِّدنا الغوث الاعظَم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مطلعِ تَشبیب و ذکرِ عاشق شُدَنِ حبیب

جو تیرا طِفْل ہے کامل ہے یا غوث

خوشا دِلے کہ دِہندَش ولائے آلِ رسول

کربلا والوں کا غم یاد آیا

ایماں کی حرارت ہے الفت ابو طالب کی

تبھی دل میں سرایت ہے ،علی ہمدم علی ہست

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

ہر دکھ یزیدیوں سے اٹھایا حسین نے

کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے

زمیں پہ رب نے اتارا حسین ابن علی