تبھی دل میں سرایت ہے ،علی ہمدم علی ہست

تبھی دل میں سرایت ہے ،علی ہمدم علی ہست

فصاحت ہے بلاغت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


قیامت سے نہیں ڈرتا مجھے نسبت علی سے ہے

علی امیدِ راحت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


اسے ملتی ہے جنت بھی، اسے عرفان ملتا ہے

جسے ان کی حمایت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


علی کا نام لے لینا ،علی کا جام پی لینا

ملنگوں کی اطاعت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


علی کو سانس میں پا کر، اتارا دل کی بستی میں

یہی میری عبادت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


مودت آل سے رکھ کر انہی کے غم میں رو لینا

مجھے شوقِ رفاقت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


جہاں اس غم گسارِ دل فگاراں سے اماں پائے

جو سردارِ ولایت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


نگاہِ بے نگاہاں ہے، پناہِ بے پناہاں ہے

اسی کی دل میں الفت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


قرارِ بے قراراں ہے، علی دلبر علی رہبر

علی کامل عبادت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


جسے مولا کی چاہت ہے اسی کے دل میں ندرت ہے

اسی کے دل میں راحت ہے ، علی ہمدم علی ہستم


مجھے خیرات میں قائم، سخنور ہاتھ بخشے ہیں

یہ، کیا حسنِ عنایت ہے ، علی ہمدم علی ہستم

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

عصیاں کا بار اٹھائے

رسول مجتبیﷺ کہیے، محمد مصطفیﷺ کہیے

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِاعظمؒ

میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت

پسند شوق ہے آب و ہوا مدینے کی

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپؐ آتے ہیں

خود ہی تمہید بنے عشق کے افسانے کی

!کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت