جادۂ ہستی کا ہے دستور سیرت آپ کی

جادۂ ہستی کا ہے دستور سیرت آپ کی

ہادیٔ عالم ھدیٰ کا نور سیرت آپ کی


مصحفِ لا ریب ہے پُر نور صورت آپ کی

مظہرِ قرآں ہوئی مذکور سیرت آپ کی


اب قیامت تک نہ آئے گا نیا ہادی کوئی

ہے ابد تک ایک ہی دستور، سیرت آپ کی


دشمنانِ جاں کی خاطر بھی دعا ، جاں بخشیاں

رافت و رحمت سے ہے معمور سیرت آپ کی


فکرِ انسانی کو بھی تابانیاں دیں آپ نے

حکمت و عرفاں کا ہے منشور سیرت آپ کی


ڈوبتی نبضیں ہوئیں انسانیت کی پھر رواں

جیسے ہی گونجی وہ نادِ صور سیرت آپ کی


دہر میں محروم طبقوں کی بھی شنوائی ہوئی

عدل کی ابھری صدائے نور سیرت آپ کی


آپ کی باتوں سے اب تک ہے معطّر کوئے زیست

خامۂ خوشبو سے ہے مسطور سیرت آپ کی


اذن کا طالب ہے آقا بندۂ عاجز ظفر

لکھ سکے منظوم اور ماثور سیرت آپ کی

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

نبیؐ کی یاد ہے سرمایہ غم کے ماروں کا

آج ہیں ہر جگہ عاشِقانِ رسول

نہ ہوتا در محمدّؐ کا تو دیوانے کہُاں جاتے

ساری خوشیوں سے بڑھ کر خوشی ہے

قرآن دسدا اے بڑائی حضور ﷺ دی

ہر پیمبر کا عہدہ بڑا ہے لیکن آقاﷺ کا منصب جُدا ہے

دُور کر دے مرے اعمال کی کالک

مرا کل بھی تیرے ہی نام تھا

جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابلِ نذرانہ