آمد مصطفیٰ اللہ اللہ گونجے ہر سو ترانے خوشی کے
فرش سے لے کے عرش بریں تک جگمگائے دیئے روشنی کے
بس رہا ہے نظر میں مدینہ دل میں ارمان ہیں حاضری کے
روتے روتے مدینے کی والی بیت جائیں نہ دن زندگی کے
میرا جینا بھی ہے کوئی جینا مجھ سے ہے دُور تیرا مدینہ
جیتے جی وہ گھڑی بھی تو آئے دیکھ لوں جلوے تیری گلی کے
تاج شاہی غلاموں کے سر پر اپنے گھر میں ہیں فاقے برابر
دونوں عالم کے مختار ہو کر گھر میں سامان ہیں سادگی کے
میری امت پہ کر دے عطائیں بخش دے مولا سب کی خطائیں
مصطفیٰ کر رہے ہیں دعائیں بخت دیکھو ذرا امتی کے
انبیاء ان کے مداحت سرا ہیں وہ حدود خرد سے وریٰ ہیں
جز خدا کے کوئی بھی نہ سمجھا مرتبے کملی والے نبی کے
عمر فاروق ، صدیق پیارے ہیں محمد کی آنکھوں کے تارے
قبر میں اپنے ساتھی بنا کر کر دیئے حق ادا دوستی کے
پیروی سرور انبیاء کی ہے عبادت یہی تو خدا کی
جس نے دیکھی گلی مصطفیٰ کی اس نے لوٹے مزے بندگی کے
غم کے ماروں کا تو آسرا ہے تو نیازی کا مشکل کشا ہے
میرے مالک مجھے اتنا دیدے کوئی شکوے رہیں نہ کمی کے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی