عاصی ہوں کہاں جاؤں میں سلطان مدینہ
جھولی میں میری ڈال دے رحمت کا خزینہ
ہے مجھ کو قسم حق کی وہی سینہ ہے سینہ
جس سینے میں آباد ہے آقا کا مدینہ
ہے دل میں میرے اب تو یہی ایک تمنا
ہو دل کی انگوٹھی میں تیرا نام نگینہ
دامن کو میرے خود ہی بھریں اپنے کرم سے
آتا ہے کہاں مانگنے کا مجھے کو قرینہ
ایماں ہے یہی میرا یہی میرا عقیدہ
رکھتے ہیں دو عالم کی خبر شاہ مدینہ
طوفاں ہے بڑی زور کا اور دور کنارا
لگ جائے کنارے پہ غلاموں کا سفینہ
مانا کہ بڑی خوب ہے عنبر کی بھی خوشبو
بڑھ کر مگر اس سے محمد کا پسینہ
سج جاتی ہیں ہر سمت درودوں کی محافل
آ جاتا ہے جب ان کی ولادت کا مہینہ
جب تک ہے سلامت میرے سانسوں کی یہ مالا
بجتی ہی رہے من میں تیرے نام کی بینہ
اک مرد قلندر نے نیازی یہ کہا تھا
جس دل میں وہ رہتے ہیں وہی دل ہے مدینہ
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی