نقشہ تری گلی کا ہماری نظر میں ہے
اِک کیف اِک سرُور سا قلب و جگر میں ہے
کیوں کر جبیں جھکے نہ دو عالم کی اس جگہ
تکمیل رفعتوں کی ترے سنگِ در میں ہے
آسُودہ ہو گیا ہے مرا ضِطرا بِ دِید
کیا دِلکشی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے
نقشِ قدم سے تیرے منّور ہیں دو جہاں
ہر ذرّہ آفتاب تری رِہگذر میں ہے
منزل بقدر شوق ہے مجھ سے بہت قریب
راہِ دیارِ قدس مِری چشم تر میں ہے
اپنے ہی جیسا کیسے انہیں مان لیجئے !
جو وصف ہے بشیرمیں وہ کب بشر میں ہے
خالِدؔ ہیں راہِ شوق کے آدب مختلف
بیٹھا ہوا ہوں اور مِرادِل سفر میں ہے
شاعر کا نام :- خالد محمود خالد
کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے