ہیں صَف آرا سب حُور وملک اور غِلماں خُلد سجاتے ہیں

ہیں صَف آرا سب حُور وملک اور غِلماں خُلد سجاتے ہیں

اِک دھوم ہے عرشِ اعظم پرمِہمان خُداکے آتے ہیں


ہے آج فلک روشن روشن ،ہیں تارے بھی جگمگ جگمگ

محبوب خُدا کے آتے ہیں محبوب خُدا کے آتے ہیں


قربان میں شان و عَظمت پر سوئے ہیں چَین سے بسترپر

جِبریلِ امیں حاضِر ہوکر مِعراج کا مُژدہ سناتے ہیں


جِبریل امین بُراق لئے جنت سے زمیں پر آپہنچے

بارات فِرِشتوں کی آئی مِعراج کو دولہا جاتے ہیں


ہے خُلد کا جوڑا زیبِ بدن رَحمت کا سجا سہرا سر پر

کیا خوب سُہانا ہے منظر مِعراج کو دولہا جاتے ہیں


ہے خوب فَضامہکی مہکی چلتی ہے ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی

ہر سَمت سماں ہے نورانی مِعراج کو دولہا جاتے ہیں


یہ عِزّوجلال اللہ! اللہ! یہ اَوج وکمال اللہ! اللہ

یہ حُسن وجما ل اللہ! اللہ! مِعراج کودولہا جاتے ہیں


دیوانو! تصوُّر میں دیکھو! اَسرٰی کے دولہا کا جلوہ

جُھرمٹ میں ملائک لیکرانہیں مِعراج کا دولہا بناتے ہیں


اقصٰی میں سُواری جب پہنچی جِبریل نے بڑھ کے کہی تکبیر

نبیوں کی امامت اب بڑھ کرسلطانِ جہاں فرماتے ہیں


وہ کیسا حسیں منظر ہوگا جب دولہا بنا سروَر ہوگا

عُشّاق تصوُّرکرکرکے بس روتے ہی رہ جاتے ہیں


یہ شاہ نے پائی سعادت ہے خالِق نے عطاکی زیارت ہے

جب ایک تجلّی پڑتی ہے موسیٰ تو غش کھاجاتے ہیں


جِبریل ٹَھہَر کرسِدرہ پر بولے جو بڑھے ہم ایک قدم

جل جائیں گے سارے بال وپَر اب ہم تو یہیں رہ جاتے ہیں


اللہ کی رَحمت سے سرور جاپہنچے دَنَا کی منزِل پر

اللہ کا جلوہ بھی دیکھا دیدارکی لذّت پاتے ہیں


مِعراج کی شب تو یاد رکھا پھر حشر میں کیسے بھولیں گے

عطارؔ اِسی اُمّید پہ ہم دن اپنے گزارے جاتے ہیں

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

چنگی بادشاہی نالوں اوہدے در دی گدائی

نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

کعبؓ و حسّانؓ کی تقلید ہوئی

وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

کیا لکھوں میں بھلا رَسُوْلُ اللہ

جو داغِ عشق شہ دیں ہیں دل پہ کھائے ہوئے

چشمِ عالم نے وہ شانِ شہِ بطحا دیکھی

یا الٰہی دلِ مسلم کو فروزاں کر دے

ان کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے

سوہنا سوہنا پیر دا دِن ایں