اب جی میں ہے رہوں کہیں ابادیوں سے دور

اب جی میں ہے رہوں کہیں ابادیوں سے دور

مل جائے چار دن تو فراغت مرے حضور


ڈر ہے یہ اشک و چشم کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے

کچھ دن رہی اگر یہی حالت مرے حضور


کیا جانوں آج کیوں ہے طبیعت مری اداس

کس چیز کی ہے دل کو ضرورت مرے حضور


درکار مجھ کو وسعتِ کون و مکاں نہیں

مجھ کو تو چاہیے درِ دولت مرے حضور


کس حال میں تھا جانے کہاں تھا کہاں نہ تھا

کچھ کرسکا نہ آپ کی خدمت مرے حضور

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

ایک بے نام کو اعزازِ نسب مل جائے

حج بیت اللہ کے رسمی سفر سے فائدہ؟

بڑھ کر ہے خاکِ طیبہ

کرتا رہا ہوں خواب میں تدبیر خواب کی

سارا پیار زمانے دا اودے پیار توں وار دیاں

بخدا خدا سے ہے وہ جدا جو حبیبِ حق پہ فدا نہیں

جب کرم سرکار کا بالائے بام آجائے گا

سراپا محبت سراپا عنایت کرم ہی کرم مصطفیٰ بن کے آئے

نہ اتقا نہ عبادت پہ ہے یقیں پختہ

مِلے ترا عشق یامحمدؐ