بخدا خدا سے ہے وہ جدا جو حبیبِ حق پہ فدا نہیں

بخدا خدا سے ہے وہ جدا جو حبیبِ حق پہ فدا نہیں

وہ بشر ہے دین سے بے خبر جو رہِ نبی میں گما نہیں


وہ نہاں بھی ہے وہ عیاں بھی ہے وہ چنیں بھی ہے وہ چناں بھی ہے

وہی جب بھی تھا وہی اب بھی ہے وہ چھپا ہے پھر بھی چھپا نہیں


تیری ذات میں جو فنا ہوا وہ فنا سے نو کا عدد بنا

جو اُسے مٹائے وہ خود مٹے ، وہ ہے باقی اس کو فنا نہیں


د و جہاں میں سب پہ ہیں وہ عیاں دو جہاں پھران سے ہوں کیوں نہاں

وہ کسی سے جب کہ نہیں چھپے تو کوئی بھی ان سے چھپا نہیں


ہر اک ان سے ہے وہ ہر اک میں ہیں وہ ہیں ایک علم حساب کے

بنے دوجہاں کی وہی بِنا وہ نہیں جو ان سے بنا نہیں


کوئیمثل ان کا ہو کس طرح وہ ہیں سب کے مبدا ومنتہے

نہیں دوسرے کی جگہ یہاں کہ یہ وصف دو کو مِلا نہیں


تیرے در کو چھوڑ کدھر پھروں تیرا ہوکے کس کا میں مُنہ تکوں

تو غنیہے سب تیرے در کے سگ وہ نہیں جو تیرا گدا نہیں


کرو لطف مجھ پہ یہ خسروا کہ چھڑا دو غیر کا آسرا

نہ تکوں کسی کو تیرے سوا کہ کسی سے میرا بھلا نہیں


کوئی تجھ سے بچ کے کہاں رہے تیرا ملک چھوڑ کہاں بسے

تو حبیبِ رب تیری ملک سب جہاں تو نہ ہو کوئی جا نہیں


یہ تمہارا سالکِؔ بے نوا مرضِ ُگنہ میں ہے مبتلا

تم ہی اس برے کو کرو بھلا کہ کوئی تمہارے سوا نہیں

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

بے نقطہ و نکتہ دانِ عالم

اوس در دے سوالی وی دیکھے تے بڑے ویکھے

آکھیاں وچ سوہنے ماہی دی تصویر وسائی پھرنا واں

اوج پر اس گھڑی اپنا بھی مقدّر ہوتا

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی

جتھے جتھے وی اُہدا نقش قدم ہندا اے

مقصودِ زندگی ہے اِطاعت رسوؐل کی

در چھڈ کے کملی والے دا در غیر دے جانا ٹھیک نہیں

تری دہلیز پر آیا ہوا خالی نہیں جاتا