اوج پر اس گھڑی اپنا بھی مقدّر ہوتا
سامنے گر وہ سراپائے منّور ہوتا
آنکھوں میں اشکِ طلب کا جو سمندر ہوتا
خالی دامن میں مرادوں کا بھی گوہر ہوتا
سنگِ در چومتا روضے کو سلامی دیتا
کاش طیبہ میں کوئی لمحہ میسر ہوتا
شاخِ طوبیٰ کا قلم بخت سے مل جاتا اگر
وصفِ سرکار میں مصروف برابر ہوتا
لَمس مل جاتا اگر آپ کے قدموں کا شہا
بخت کے ساتھ مرا گھر بھی منوّر ہوتا
گنبدِ خضریٰ کا ہر روز لگاتا چکر
کاش طیبہ کا یہ احمدؔ بھی کبوتر ہوتا
شاعر کا نام :- مولانا طفیل احمد مصباحی
کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت