سراپا محبت سراپا عنایت کرم ہی کرم مصطفیٰ بن کے آئے

سراپا محبت سراپا عنایت کرم ہی کرم مصطفیٰ بن کے آئے

دو عالم کی رحمت دو عالم کی راحت دو عالم کے حاجت روا بن کے آئے


کرم بن کے آئے وفا بن کے آئے وہ منبع جو دو سخا بن کے آئے

سجائے ہوئے تاج طہ کا سر پر محمد حبیب خدا بن کر آئے


سر لامکان پر ہے ان کی رسائی ، انہیں کا خدا ہے انہیں کی خدائی

وہ عرشوں کے احمد زمین کے محمد ﷺ زمانے کے مشکل کشا بن کے آئے


غریبوں کے والی فقیروں کے داتا رسالت کا گہنا شفاعت کے دولہا

لرزتے لبوں کی دعا بن کے آئے دھڑکتے دلوں کی صدا بن کے آئے


سر حشر نادم ہوئیں جب خطائیں، چلیں مصطفیٰ کے کرم کی ہوائیں

خطا کار دیکھے جو فریاد کرتے محمد ﷺ شفیع الوری بن کے آئے


کبھی رنگ لائیں محبت کی باتیں ، مدینے کے دن ہوں مدینے کی راتیں

وہ وقت آئے جب کہ پیام مدینہ مرے درد دل کی دوا بن کے آئے


نیازی کو اک جام ایسا پلا دے یہیں بیٹھے بیٹھے مدینہ دکھا دے

ترے در کی عظمت کے قربان جاؤں جہاں تاجور بھی گدا بن کے آئے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

طیبہ نگر کو جانا ہے باعثِ سعادت

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

صیغہء حمد سے و ہ اسم ِ شریف

روئے نگارِ زیست کی رنگت نکھر گئی

سر رکھدے یار دے قدماں تے تیری عشق نماز ادا ہووے

گزر جائیں گے ہنستے کھیلتے سارے مراحل سے

ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا

اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا

بڑی کریم تری ذات یا رسول اللہ

تو حرف دُعا ہے مرے مولا مرے آقا