اے قضا ٹھہر جا اُن سے کرلوں ذرااِک حسیں گفتگو آخری آخری
اور کوئی تمنا نہیں با خدا ہے یہی آرزو آخری آخری
آنسوؤں کی جو رُت ہے بدل جائیگی جان آرام سے پھر نکل جائیگی
پوچھ لیں گر ذرا حا ل نازک میرا بیٹھ کر رُو برو آخری آخری
میرے گھر میں وہ جس وقت آجائیں گے اُن کے دامن سے پل بھر لپٹ جائیں گے
سامنے اُن کے نینوں کو کروائیں گے آنسوؤں سے وضو آخری آخری
میری حالت بظاہر تو کمزور ہے اُن کے غم سے بندھی سانس کی ڈور ہے
پہنچ جاؤں فقط اُن کے قدموں تلک ہے یہی جستجو آخری آخری
اِس سے پہلے کہ اُٹھ کر چلے جائیں وہ قصہء غم مکمل نہ سن پائیں وہ
ہوش کر بے خبر وقت ہے مختصر بول دے لفظ تو آخری آخری
اُن کی بستی میں لے چل مجھے چارہ گر دیکھنی ہیں وہ گلیاں فقط اِک نظر
چاہتی ہے نگاہ اُن کی ہو بارگاہ پیش کردوں سلام آخری آخری
رات ڈھلتے ہی یہ نبض رک جائے گی ٹوٹ کر شاخ سانسوں کی جھک جائے گی
ایسے لگتا ہے اب تو حاکم مجھے ہوگی صبح و نمو آخری آخری
شاعر کا نام :- احمد علی حاکم
کتاب کا نام :- کلامِ حاکم