اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

فرشتے ایسی قسمت پر قصیدے پڑھ رہے ہوتے


یہ آنکھیں خشک ہو جاتیں، کہیں پہ دل بھی لگ جاتا

اگر واپس درِ لجپال سے ہم آ گئے ہوتے


ہماری بے خوی نے ہی بچایا ہم کو روضے پر

اگر ہم ہوش میں ہوتے تو سجدے کر رہے ہوتے


ہماری منتظر آنکھوں کو پھر بھی چین آ جاتا

تسلّی کے اگر قاصد نے دو جملے کہے ہوتے


اگر جنّت بھی نہ ہوتی گدائے جلوہِ جاناں

ہمارے اُس کے رستے پھر علیحدہ ہو گئے ہوتے


قسم اللہْ کی محشر میں اپنے بھاؤ بڑھ جاتے

جو بازارِ مدینہ میں خوشی سے ہم بِکے ہوتے


نہ ما زاغ البصر کہتا خدا نہ ما طغٰی کہتا

محمدﷺ کیلئے رب کے اگر جلوے نئے ہوتے


قیامت ہوگی لیکن بس ترے شیریں تبسم تک

پھر اُس کے بعد محشر کون دیکھے گا تِرے ہوتے

دیگر کلام

نہ اتقا نہ عبادت پہ ہے یقیں پختہ

کہنا ہے دل کا حال رسالتؐ مآب سے

لج پال نبی کملی والا من ٹھار وی اے غم خوار وی اے

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو

پڑھا بے زبانوں نے کلمہ تمہارا

اے ہادئ دارین، مقدّر گرِ آفاق

دل سے نِکلی ہُوئی ہر ایک صدا کیف میں ہے

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

آواز دی تو رحمتِ سرکار رک گئی

راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں