آگے بڑھتا ہُوں تو مَیں عرش سے ٹکراتا ہُوں
لَوٹتا ہُوں تو ستاروں پہ قدم رکھتا ہُوں
بے ہُنر ہُوں پہ مِرے خُون میں ہے ذوق ِثنا
پَر تو رکھتا نہیں پرواز کا دم رکھتا ہُوں
میرے ماحول میں دُنیا ہے مرے دِل میں نہیں
جِسے رکھتا ہُوں زیادہ اُسے کم رکھتا ہُوں
اُن سے مِلنے کی خُوشی اُن سے نہ مِلنے کا الم
بس یہ رکھتا ہُوں خُوشی بس یہ الم رکھتا ہُوں
دل کو کب سے صنم آباد بنا رکھّا ہے
آج ڈھا کر اِسے بنیادِ حرم رکھتا ہُوں
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں