عجب رنگ کرم دیکھا ہواؤں میں گھٹاؤں میں

عجب رنگ کرم دیکھا ہواؤں میں گھٹاؤں میں

ہوائیں وجد کرتی ہیں مدینے کی فضاؤں میں


وہ گھڑیاں یاد آتی ہیں وہ لمحے یاد آتے ہیں

رہے ہیں چار دن جو گنبد خضری کی چھاؤں میں


وہ سجدہ ریزیاں دل کی وہ سیل اشک آنکھوں میں

بتاؤں کیا سرور و کیف تھا کیا کیا دُعاؤں میں


شہ کونین کے در پر فقیروں بادشاہوں کو

جسے دیکھا بچشم نم دعاؤں التجاؤں میں


یہاں لینے نہیں دیتے تھے سکھ کا سانس غم مجھ کو

سکونِ دل ملا آخر مدینے کی ہواؤں میں


مدینے کا سفر ہو عمر گزرے آنے جانے میں

رہے گردش سدا مولا مری حسرت کے پاؤں میں


ملے حسنین کے صدقے ہمیں بھی بھیک رحمت کی

ہمارا نام بھی شامل رہے تیری عطاؤں میں


نیازی تو ہی اک منگتا نہیں سرکار بطحا کا

ولی دیکھے نبی دیکھے محمد کے گداؤں میں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

تیری ساری باتیں لکھنا میرے بس کی بات نہیں

جو شخص آپ کے قدموں کی دھول ہوتا نہیں

مرکزِ عدل و محبت آپ ہیں

ہیں مظہرِ ذاتِ حق رسولِ اَکرم

ہے یہ حسرت ترا ذکر جب میں کروں اے شہِ دوسرا شاہدِ ذو المنن

دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے

تو سرگروه انبیا رحمت کی تجھ پر انتہا

راحتیں ہوں نہ میسّر تری مدحت کے بغیر

باطل کے جب جب بدلے ہیں تیور

ہو نگاہ کرم کملی والے تیرے بن کوئی میرا نہیں ہے