بہر دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائے

بہر دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائے

چاندنی رات ہے اور پچھلا پہر دونوں عالم کے سرکار آجائے


سدرة المنتہى عرش و باغ ارم ہر جگہ پڑ چکے ہیں نشان قدم

اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکار آ جائے


شام امید کا اب سویرا ہوا سوئے طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا

بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب و نظر دونوں عالم کے سرکار آجائے


سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو

کر کے تبدیل اک دن لباس بشر دونوں عالم کے سرکار آجائے


دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ لئے جذبہ اشتیاق مدینہ لئے

کتنے گھائل کھڑے ہیں سر رہگذر دونوں عالم کے سرکار آجائے


میرے گلشن کو اک بار مہکائیے اپنے جلوؤں کی بارش میں نہلائے

دیدہ شوق کو کیجئے بہرہ ور دونوں عالم کے سرکار آجائے


تا ابد اپنی قسمت پہ نازاں رہیں خاک ہو جائیں پھر بھی فروزاں رہیں

دل کی بزم تمنا میں اک بار اگر دونوں عالم کے سرکار آجائے


آخری وقت ہے ایک بیمار کا دل مچلنے لگا شوق دیدار کا

بجھ نہ جائے کہیں یہ چراغ سحر دونوں عالم کے سرکار آجائے


شام غربت ہے اور شہر خاموش ہے ایک ارشد اکیلا کفن پوش ہے

خوف کی ہے گھڑی وقت ہے پر خطر دونوں عالم کے سرکار آ جائے

شاعر کا نام :- علامہ ارشد القادری

کتاب کا نام :- اظہار عقیدت

دیگر کلام

ہو اگر مدحِ کف پا سے منور کاغذ

ہوں جو یادِ رُخِ پرنور میں مرغانِ قفس

ہم نے تقصیر کی عادت کرلی

یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا

یا نبی یاد تری دل سے مرے کیوں جائے

جس سے تم روٹھو وہ برگشتئہ دنیا ہو جائے

زمیں تا چرخ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے

جمال نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا

ہے جبیں شوق کا بھی دنیا میں اک ٹھکانہ

ماه مبین و خوش ادا صل علی محمد