بتوں کے آگے نہ سر جھکانا

بتوں کے آگے نہ سر جھکانا

نہ اپنے دامن میں آگ بھرنا


یہی وہ پہلا پیامِ حق تھا

جسے بھلا کر


ہم آج پھر سے

کئی بتوں کے حضور سجدوں کے امتحاں سے گذر رہے ہیں


اور اپنے دامن میں روز و شب آگ بھر رہے ہیں

خدا کے آگے نہ جھکنے والے


انا وحرص و ہوس کے آگے جھکے ہوئے ہیں

(ضمیر کی قید میں کھڑے ہیں )


خدا ئے برتر !

بس ایک موقع


ہماری ان بے یقیں سہاروں سے جاں چھڑا دے

نبی کی تعلیم کی ہوئی راہ پر چلا دے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

عصمتِ حسنِ پیمبرؐ سے ضیا ڈھونڈیں گے

جانب منزل محبوب سفر میرا ہے

میری ہر سانس پر اُس کی مہر نظر

حضور لطف و عطا کا کمال رکھتے ہیں

عجب روح پرور فضائے مدینہ

اے دِل تو دُرُودوں کی اَوّل تو سجا ڈالی

اپنی فطرت جو نعتِ نبیؐ ہو گئی

میں سرکار کا کہلاتا ہوں منہ چھوٹا ہے بات بڑی

ہر ادا آپؐ کی دین ہے

دستِ قدرت نے عجب صورت بنائی آپ کی