چاندنی آ کے افلاک سے رات بھر
چومتی ہے مدینے کے دیوار و در
نعت کے اوج کو چھو لیا حرف نے
میرے الفاظ ہونے لگے معتبر
سبز گنبد مواجہ ریاضِ جناں
دیکھنے کو تڑپتا ہوں شام و سحر
ارضِ طیبہ ہے لاریب رشکِ جناں
سنگریزے مدینے کے شمس و قمر
میں خطا کار ہوں اور نادم بھی ہوں
اے رسولِ خدا کیجئے در گزر
آج اذنِ حضوری ملا ہے مجھے
ماہِ تقدیر ہے ضوفشاں اوج پر
ربِ کونین ہے واقفِ شانِ اُو
ان کی رفعت سے انسان ہے بے خبر
سر سے جھکنے کا سودا نکلتا نہیں
جب تلک پیش منظر میں ہے سنگِ در
سارے اسبابِ تزئین چاکر ترے
پھول شبنم کلی باغ پتے شجر
ساری سوچیں مواجہ پہ ہیں سر بہ خم
مل گیا ہے خیالات کو مستقر
شاہِ بطحا کا بے حد کرم ہی تو ہے
نعت کہتا ہے اشفاق سا بے ہنر
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت