دیارِ نور میں اک آستاں دکھائی دیا

دیارِ نور میں اک آستاں دکھائی دیا

کفِ زمیں پہ دھرا آسماں دکھائی دیا


جناں کا نور تھا خوشبو کے مست جھونکے تھے

دیارِ نور بہ رنگِ جناں دکھائی دیا


خجل دکھائی دیئے ماہ و خاور و انجم

جہاں حضور کا تلوا عیاں دکھائی دیا


بدن جلانے لگی دھوپ روزِ محشر کی

تو سبز نور بھرا سائباں دکھائی دیا


وہیں پہ شوکتِ شاہی نے پاؤں چوم لئے

غلامِ شاہِ دو عالم جہاں دکھائی دیا


درونِ بابِ سلامی برائے تشنہ لباں

عطا و جود کا دریا رواں دکھائی دیا


حضور آپ کے میلاد کی مسرت ہے

جو رقصِ نور سرِ کہکشاں دکھائی دیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

یا نبیؐ! سلامُ علیک

یا محمد نور مجسم تیری رب نے شان و دھائی

اوہ دین تے دنیا کھوہ بینیدے جیڑے جنڈری یار توں گھول دے نئیں

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے

ملیں دین و دنیا کی نعمتیں مجھے کیا نہ میرے خدا دیا

خدا کے پیارے نبی ہمارے رؤف بھی ہیں رحیم بھی ہیں

ہے مظہرِ انوارِ خدا رُوئے محمد

گنبدِ خضرا کے سائے میں بٹھایا شکریہ

قطرہ قطرہ درُود پڑھتا ہے

بھرا ہے نعت کا مضموں مرے دل سے چھلکتا ہے