دل و جانِ دو جہاں ہے کہ ہے جانِ ہر زمانہ

دل و جانِ دو جہاں ہے کہ ہے جانِ ہر زمانہ

جہاں سر ادب سے رکھ دو وہیں ان کا آستانہ


وہاں سر نہ کیسے خم ہو بصد عجز والہانہ

جہاں ذرّے ذرّے میں ہے اک ادائے معجزانہ


مجھے حشر کی تمازت بھلا کیا ستا سکے گی

تیری رحمتوں کا ہوگا مرے سر پہ شامیانہ


میں ہوں محو شوق سجدہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے

ترا آستاں جبیں ہے کہ جبیں ہے آستانہ


رہ عشق مصطفیٰ میں بھلا کیسی شرک و بدعت

تری گفتگو تو ناصح ہے گناہِ ناصحانہ


بصد احترام ابھی تک یہ قیام معجزہ ہے

جہاں آئی شام اسریٰ وہیں رُک گیا زمانہ


میری نعت کی لطافت نہیں ہر کسی کے بس کی

مرا شوق والہانہ میری فکرِ عالمانہ


مہ و مہر مصطفٰی کا جو صبیحؔ ذکر آیا

تو خود اشک بن کے چمکی مری فکرِ شاعرانہ

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

وہ جو قرآن ہو گیا ہوگا

جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

حقیقتِ مصطفیٰ کہوں کیا کہ اضطراب اضطراب میں ہے

ہر سانس ہجر شہ میں برچھی کی اک اَنی ہے

آئے نظر جو وہ رُخِ قرآن کسی دن

جلوہ گر مشعل سرمدی ہوگئی

ارضِ طیبہ عجیب بستی ہے

خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

آج کل پرسوں کبھی ہو جائے گی

اس طرح جانِ دو عالم ہے دل و جان کے ساتھ