ہم کو پتہ ہے شمس یہ ضوافگنی کا راز

ہم کو پتہ ہے شمس یہ ضوافگنی کا راز

نورِ رسول ہے تری تابندگی کا راز


ہر ذرہ آفتاب ہے ان کے دیار کا

یہ ہے نبی کے شہر کی تابندگی کا راز


آرام گاہِ سرورِ کونین تجھ میں ہے

طیبہ میں جانتا ہوں تری دلکشی کا راز


عکسِ جمالِ شاہ ہدیٰ میں نہاں ملا

گلشن ترے گلاب کی اس تازگی کا راز


نادان! چشمِ عشق و عقیدت سے پڑھ ذرا

قرآں کی آیتوں میں ہے نعتِ نبی کا راز


طیبہ بلا کے مجھ کو کریں گے عطا قرار

سرکار کو پتہ ہے مری بے کلی کا راز


یہ میرے مصطفےٰ کا کرم ہی تو ہے شفیق ؔ

افشا نہیں ہوا ہے مری کج روی کا راز

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

وظیفہ پڑھ کلامِ رب، کلام اعلیٰ حضرت کا

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں

رسولِ ہاشمی جب حشر میں تشریف لائیں گے

منبعِ علمِ نبوت آپ ہیں

جو نبی کی مِرے تعظیم نہیں کرتا ہے

طیبہ کی مشک بار فضا کے اثر میں ہے

مدینے کی جانب دل اپنا جھکا کر

نہ تمنا دولتوں کی نہ ہی شہرتوں کی خواہش

تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول

یہ تو بس اُن کا کرم ہے کہ ثنا سے پہلے