حصار نور میں ہوں گلشن طیبہ میں رہتا ہوں

حصار نور میں ہوں گلشن طیبہ میں رہتا ہوں

خوشا قسمت کہ میں تو جلوۂ زیبا میں رہتا ہوں


شفق پھیلی ہو یا ہو صبح کے انوار کا منظر

میں بے خود سا خیال سنتِ آقا میں رہتا ہوں


مری سوکھی ہوئی کھیتی خدا سر سبز کر دے گا

میں روز وشب خیالِ گنبد خضریٰ میں رہتا ہوں


شعورِ زندگی پاتا ہوں میں دونوں حصاروں سے

کبھی بطحا میں رہتا ہوں، کبھی طیبہ میں رہتا ہوں


اطاعت کے جس گوہر تمنا ہے مری ہر دم

شفیع المذنبیں کے ضوفشاں اسوہ میں رہتا ہوں

شاعر کا نام :- گوہر ملسیانی

اےحسینؑ ابنِ علی ؑ نورِ نگاہِ مصطفیٰﷺ

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا

شاہِ بَرَکات اے ابُو البرکات اے سلطانِ جُود

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

السّلام اے عظمتِ شانِ وطن !

وہ سُوئے لالہ زار پِھرتے ہیں

محمد مصطفٰی آئے بہاروں پر بہار آئی

یہ نوازشیں یہ عنایتیں غمِ دوجہاں سے چھڑا دیا

غم ہو گئے بے شمار آقا