ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے

ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے

اپنے یہ چاند سورج سنبھالو ‘ ہم تو جاتے ہیں اپنے مدینے


میں کسی در پہ سر کیوں جھکا دوں ‘ خالی دامن تمہیں کیوں دکھادوں

میرے آقاﷺ کی نگری سلامت ‘ جس کی گلیوں میں گھر گھر خزینے


ضبط کا مجھ میں یارا نہیں ہے ‘ رنجِ دُوری گوارا نہیں ہے

ذکرِ طیبہ خدارا نہ چھیڑو ‘ پھر چھلک جائیں گے آبگینے


شرم سے سر جھکے جارہے ہیں ‘ دل میں رہ رہ کے پچھتا رہے ہیں

اللہ اللہ یہ بارانِ رحمت ‘ آگئے عاصیوں کو پسینے


علم و عرفان کا میں کیا کروں گا ‘ درسِ ایماں کسی سے نہ لوں گا

میرے آقاﷺ کے قدموں کے نیچے ہیں فضائل لاکھوں دفینے


وہ معطر معطر ہوائیں ‘ وہ منور منور فضائیں

جن کی خوشبو سے معمور سا نسیں ‘ جن کے جلووں سے پُر نور سینے


آدمی کا بھرم کھو گیا تھا ‘ غرقِ سیلابِ غم ہو گیا تھا

لیکن اک نا خدا کے سہارے ‘ پھر ابھر آئے ڈوبے سفینے


عمر اقبؔال یو نہی بسر ہو ‘ ہر نفس یاد خیر البشرﷺ ہو

صبح تا شام ذکرِ مسلسل ‘ اور راتوں کو پیہم شبینے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

یا محمد میرے مولا آپ ہیں

چا چڑھیا سارے عالم نوں سرکار دی آمد ہو گئی اے

اوہنوں جان کہواں یا جان دی وی اُس سوہنے نوں میں جان آکھاں

ہے تقدیسِ شمس و قمر سبز گُنبد

بُراقِ فکر ہے گردوں نو رد آج کی رات

ہاں اگر تجھ کو حیاتِ جاودانی چاہئے

شاہِ گردُوں مقام عرش خرام

ہزار بار ہوئی عقل نکتہ چیں پھر بھی

دھو کر زباں کو زمزم و عرقِ گلاب سے

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ