ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے
اپنے یہ چاند سورج سنبھالو ‘ ہم تو جاتے ہیں اپنے مدینے
میں کسی در پہ سر کیوں جھکا دوں ‘ خالی دامن تمہیں کیوں دکھادوں
میرے آقاﷺ کی نگری سلامت ‘ جس کی گلیوں میں گھر گھر خزینے
ضبط کا مجھ میں یارا نہیں ہے ‘ رنجِ دُوری گوارا نہیں ہے
ذکرِ طیبہ خدارا نہ چھیڑو ‘ پھر چھلک جائیں گے آبگینے
شرم سے سر جھکے جارہے ہیں ‘ دل میں رہ رہ کے پچھتا رہے ہیں
اللہ اللہ یہ بارانِ رحمت ‘ آگئے عاصیوں کو پسینے
علم و عرفان کا میں کیا کروں گا ‘ درسِ ایماں کسی سے نہ لوں گا
میرے آقاﷺ کے قدموں کے نیچے ہیں فضائل لاکھوں دفینے
وہ معطر معطر ہوائیں ‘ وہ منور منور فضائیں
جن کی خوشبو سے معمور سا نسیں ‘ جن کے جلووں سے پُر نور سینے
آدمی کا بھرم کھو گیا تھا ‘ غرقِ سیلابِ غم ہو گیا تھا
لیکن اک نا خدا کے سہارے ‘ پھر ابھر آئے ڈوبے سفینے
عمر اقبؔال یو نہی بسر ہو ‘ ہر نفس یاد خیر البشرﷺ ہو
صبح تا شام ذکرِ مسلسل ‘ اور راتوں کو پیہم شبینے
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم