عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

خوش مقدر ہیں اشکبار آنکھیں


خوبصورت ہے جس کا ہر منظر

ڈھونڈتی ہیں وہی دیار آنکھیں


حسرتِ دید لے کے پلکوں میں

ان کا کرتی ہیں انتظار آنکھیں


جلوہ گر ہے جو دشتِ طیبہ میں

مانگتی ہیں وہی غبار آنکھیں


پانی پانی ہوئیں مواجہ پر

جرمِ عصیاں سے داغدار آنکھیں


میں تہی دست کاش کر سکتا

روحِ کونین پر نثار آنکھیں


وقتِ رخصت دیارِ خوشبو کو

مڑ کے دیکھیں گی بار بار آنکھیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

یارب رواں یہ سانس کی جب تک لڑی رہے

حیَّ علیٰ خَیْرِ الْعَمل

بطحا سے آئی، اور صبا لے گئی مجھے

مِرے تم خواب میںآؤ مِرے گھر روشنی ہوگی

بزمِ امکاں عرش و کرسی فرش و بحر و بر بنے

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

کچھ اور خیالوں میں لایا ہی نہیں جاتا

شاہِ دو عالم سُں لیجئے میری نوا میری فریاد

ہمیں کوچہ تمہارا مِل گیا ہے

کردے نے رقص تارے سرکار آگئے نے