جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم

جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم

باز آئے ہند بد اَختر سے ہم


مار ڈالے بے قراری شوق کی

خوش تو جب ہوں اس دلِ مُضطَر سے ہم


بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ ہے یہی

اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم


تشنگیٔ حشر سے کچھ غم نہیں

ہیں غلامانِ شہ کوثر سے ہم


اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع

ڈَر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم


نقش پا سے جو ہوا ہے سرفراز

دِل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم


گردنِ تسلیم خم کرنے کے ساتھ

پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم


گور کی شب تار ہے پر خوف کیا

لو لگائے ہیں رُخِ اَنور سے ہم


دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں

جب لپٹ کر روئے اُن کے در سے ہم


کیا بندھا ہم کو خدا جانے خیال

آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم


جانے والے چل دئیے کب کے حسنؔ

پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

آمنہ دا لال آ گیا ماہی ہے مثال آگیا

درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی

ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے

گلشنِ دہر میں ہر جا ہے لطافت ان کی

آشنا انساں مقامِ کبریائی سے ہوا

چشمِ بے چین کا چین ‘ دل کا سکوں

ذہن کے سادہ اُفق پر تیری خوشبو اور تُو

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

کون کہتا ہے کہ جنت کا جمال اچھا ہے

جس ویلے ایناں اکھیاں نوں روون دا قرینہ آ جاندا