جس طرف دیکھئے گلشن میں بہار آئی ہے

جس طرف دیکھئے گلشن میں بہار آئی ہے

دل مگر دشتِ مدینہ کا تمنّائی ہے


خوشنما پھول گُلستاں میں کِھلے ہیں لیکن

میرا دل خارِ مدینہ ہی کا شیدائی ہے


مصطفٰے کی یہ عِنایت ہے کہ میرے دل میں

گنبدِ سبز کی تصویر اُتر آئی ہے


جب کبھی جس نے بھی پائی ہے جہاں کی نعمت

آپ کے دستِ کرم ہی سے شہا پائی ہے


آہ! مجبور پہ ناچار پہ رنج و غم کی

چار جانِب سے شہا! کالی گھٹا چھائی ہے


دے دے مولا! غمِ سلطانِ مدینہ دیدے

لب پہ رہ رہ کے یہی ایک دُعا آئی ہے


جب تڑپ کر دِلِ غمگیں نے پُکارا آقا!

فوراً اِمداد شہا آپ نے فرمائی ہے


کر دو سَیراب دِل تِشنہ کو اب تو ساقی!

شربتِ دِید کا مدّت سے تمنّائی ہے


گُھپ اندھیرا تھا گناہوں کا میں صدقے جاؤں

لَحد خود آ کے مری نُور سے چمکائی ہے


نَزع میں ، قَبر میں ، مِیزانِ عمل اور پُل پر

ہر جگہ آپ کی نسبت ہی تو کام آئی ہے


سُنّتیں شاہِ مدینہ کی تُو اپنائے جا

دونوں عالَم کی فَلاح اِس میں مِرے بھائی ہے


مال و دولت کی ہَوَس دِل سے مٹادے یارب

سوزِ سرکار کا عطّارؔ تمنّائی ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

جھوم کر سارے پکارو مرحبا یامصطَفٰے

جلد ہم عازِمِ گلزارِ مدینہ ہوں گے

جب تلک یہ چاند تارے جِھلمِلاتے جائیں گے

جو نبی کا غلام ہوتا ہے

جو بھی سرکار کا عاشقِ زار ہے

جس طرف دیکھئے گلشن میں بہار آئی ہے

سرکار کی آمد مرحبا

حُبِّ دُنیا سے تُو بچا یارب

حج کا شَرَف ہو پھر عطا یاربِّ مصطَفٰے

حسرت بھرے دلوں سے ہم آئے ہیں لوٹ کر

حسرتا وا حسرتا شاہِ مدینہ الوداع