جلد ہم عازِمِ گلزارِ مدینہ ہوں گے

جلد ہم عازِمِ گلزارِ مدینہ ہوں گے

حاضِرِ دَرگہِ سردارِمدینہ ہوں گے


اب تو نورانی چمن زارِ مدینہ ہوں گے

سامنے اب مِرے کہسارِ مدینہ ہوں گے


سبز گنبد کی وہاں خوب بہاریں ہوں گی

رُوبَرُو پھر مرے اَشجارِ مدینہ ہوں گے


وَجد آجائے گا قسمت کو بھی اُس دم وَاللہ

سامنے جب مِرے سرکارِ مدینہ ہونگے


اُن کی رحمت سے جو مل جائے بقیعِ غَرقَد

بِالیقیں قبر میں انوارِ مدینہ ہوں گے


قافِلے کی یوں مدینے سے جُدائی ہوگی

مُضطَر و غمزدہ زَوّارِ مدینہ ہوں گے


نَزع میں قبر میں محشر میں وہ پائیں آرام

دارِ فانی میں جو بیمارِ مدینہ ہوں گے


حشر سے کیوں ہو پریشان گنہگارو تم

اپنے حامی وہاں سرکارِ مدینہ ہوں گے


اُن کو حاصل مِرے آقا کی شَفاعت ہوگی

جو کوئی حاضِرِ دربارِ مدینہ ہونگے


میری سرکار کا آئے گا بُلاوا اُن کو

جو کوئی دل سے طلب گارِ مدینہ ہوں گے


نَزع میں عاشِقوں کی عید ہی ہو جائے گی

ان کے سِرہانے توسرکارِ مدینہ ہوں گے


حشر میں جائیں گے عطارؔ یُوں اِن شاءَ اللہ

اپنی داڑھی میں سجے خارِ مدینہ ہوں گے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ نبی کا

مُکھڑا نورانی طٰہ پیشانی

اُن کا تصور اور یہ رعنائیِ خیال

ہم پہ ان کی ہیں رحمتیں کیا کیا

چلو دیار نبیﷺ کی جانب

اللہ نے مختار بنایا میرے کملی والے نوں

حاصلِ زیست ہے اُس نُور شمائل کی تلاش

غم طمانیت و تسکین میں ڈھل جاتے ہیں

اُٹھ دلا سوہنے نوں سلام گھلئیے

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں