خدایا ان کے در کی حاضری لکھ دے مقدر میں

خدایا ان کے در کی حاضری لکھ دے مقدر میں

وہ جن کے نامِ نامی سے اجالے ہیں مرے گھر میں


مزاجِ صبح کو اپنالیا جب رات نے دیکھا

اندھیروں کا گزر ممکن نہیں شہرِ منور میں


بہ باطن کیا ہیں وہ، اس سے تو بس اللہ واقف ہے

بظاہر تو زمیں پر آئے ہیں انساں کے پیکر میں


انہی کو بیچ کر اپنی شفاعت ہم خریدیں گے

گہر ہم نے چھپا رکھے ہیں جو پلکوں کی چادر میں


یہ ممکن ہی نہیں حاصل نہ لطفِ خاص ہو اُن کا

وہ جن کی یادوں میں، جن کا سودا ہے مرے سر میں

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خواہش

ملکِ خاصِ کِبریا ہو

سب کی آنکھوں کا تارا ہمارا نبی

اے کاش وہ دن کب آئیں گے

کچھ صلہ بھی بندگی کا چاہیے

میری منزل کا مُجھ کو پتہ دے کوئی

عطا کرتی ہے شان ماوَرائی یا رَسُول اللہ

یہ تن میرا پیار کی نگری نگر کے اندر تو

تخلیق ، یہ جہان ہُوا آپ کے طفیل

جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے