کتنا حسین دلکش اعلیٰ ترا خیال

کتنا حسین دلکش اعلیٰ ترا خیال

شاخِ ثنا پہ آج بھی اُترا ترا خیال


غم راحتوں میں ڈھل گئے دل جگمگا اٹھا

جب بھی تصورّات میں چمکا ترا خیال


چکرا گیا ہے عشق بھی آفاق دم بخود

یوں ساکنانِ طیبہ نے رکھا ترا خیال


جب بھی سنا ہے شہرِ مدینہ کا تذکرہ

اِک وجد آیا روح کو چھایا ترا خیال


فرمایا رب نے رات کا کچھ کم کرو قیام

ہے ربِ ذوالجلال کو کتنا ترا خیال


تیرے کرم سے سوچ کا قبلہ بدل گیا

پیشِ نظر ہے اب مرے آقاؐ ترا خیال


رب کی عطا سے مل گیا انساں تجھے شعور

ـذکرِ حبیبِ پاک سے نکھرا ترا خیال


مدحت نگار کہہ گئے ہر دور میں شکیلؔ

ذہنوں کی دسترس سے ہے بالا ترا خیال

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

مرے حضورؐ کی جس کے نہ دل میں ہو تعظیم

ارضِ بطحا کی طرح کوئی زمیں ہے تو کہو

مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہر آنے والا ہے

دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں

مجھ سے کیسے ہو بیاں عظمت رسول اللہ کی

سجےّ لولاک والا تاج تینوں

ہم سے نہ یہ پوچھے کوئی، کیا دیکھ رہے ہیں

یانبیؐ صلِ علیٰ صلِ علیٰ کہتے رہو

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا رحمتوں کی چلی

جو صدقِ دل سے تمہارا غلام ہوجائے