لے کے پہلو میں غمِ اُمّتِ نادار آئے

لے کے پہلو میں غمِ اُمّتِ نادار آئے

اُمّتی اُمّتی کہتے ہوئے سَرکار آئے


کھُل گئے محفل کونین پہ کونین کے راز

محرمِ رازِ نہاں واقفِ اسرار آئے


سُن کے سَرکار مدینہ کی ولادت کی خبر

ہر گنہگار پکارا مِرے غَم خوار آئے


فرش والوں کے مقدرّ کا ستارا چمکا

شور اُٹھا کہ غریبوں کے مددگار آئے


فرش پر عرشِ معلّیٰ کا گماں ہوتا ہَے

لے کے دامن میں کچھ اس طرح کے انوار آئے


پھر کِسے مانگنے کا ہوش رہے اے اعظم

بانٹنے والا اگر خود سرِ بازار آئے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

جانِ ایمان ہے الفتِ مصطفیٰؐ

شہرِ طیبہ کی ہوا درکار ہے

جبینِ شوق بلاوے کے انتظار میں ہے

فصیل پر ہیں ہوا کی روشن چراغ جس کے

(مثلث)یَا اَ یُّہا المُزَّمِل

سرکار دو عالم سرور دیں کس پر وہ کرم فرماتے نہیں

اگر دل میں شہنشاہِ مدینہ کی محبت ہے

انبیاء کی کہکشاں ہے مصطفیٰؐ صرف ایک ہے

سبز گنبد کے مناظر دور تک

در بہ در ہونے والوں کا گھر آپؐ ہیں