مدینہ دیکھ کر دل کو بڑی تسکین ہووے ہے

مدینہ دیکھ کر دل کو بڑی تسکین ہووے ہے

طبیعت دور بطحا سے بہت غمگین ہو وے ہے


مرے دل میں ابھرتا ہے تصور کملی والے کا

مرے ہونٹوں پہ جس دم سورۂ یاسین ہو وے ہے


وہی منشورِ دیں ہے جو مرے آقا نے فرمایا

حبیبِ کبریا کی بات ہی آئین ہو وے ہے


خیال آتا ہے جس لمحے شہِ کونین کا دل میں

دلِ برباد میں آرائش و تزئین ہووے ہے


بڑی بے آبرو ہووے ہے خلقت در بدر پھر کے

تری چوکھٹ پہ آ کر صاحبِ تمکین ہووے ہے


نبی کا عشق رکھنا اپنے سینے میں حفاظت سے

ہمیشہ ماں کے ہونٹوں پر یہی تلقین ہووے ہے


میں نعتِ مصطفیٰ کے لفظ بنتا ہوں محبت سے

تو پھر اشفاقؔ بے حد نعت کی تحسین ہووے ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

ہے طاہرؔ آتی جاتی سانس میں صلِّ علیٰ کی لے

صد شُکر ملی مجھ کو گدائی ترے در کی

ہر بات اِک صحیفہ تھی اُمّی رسُولؐ کی

سجن روگ مٹا جاندے نے

در تے جو آن کے ڈگدا اے اُٹھا لیندے نے

نشاطِ روح خیالِ محمدِّؐ عربی

مدینے محترم نوں دیکھ آیاں

نبی اے باقی جہان فانی

اس نظر کے مقدر کی کیا بات ہے جس کو تیری نظر کا سہارا ملے

درِ سرکارؐ سے ربط بڑھاؤ تو سہی