مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

مقدر اَوج پر ہے آج مجھ کو اعتبار آیا


غموں کے چھٹ گئے بادل ہوئی تاریکیاں رُخصت

گھٹا رحمت کی جب برسی تو پھر کھل کر نکھار آیا


مہک اٹھا چمن دل کا خوشی کے کھل گئے غنچے

مرے اجڑے ہوئے گلزار میں موسم بہار آیا


تمنائیں مچلتی تھیں بکھرتی تھیں جو سینے میں

سمٹ کر ہوگئیں یکجا وہ جب ان کا دیار آیا


کئے پھر شکر کے سجدے عقیدت سے لئے بوسے

کہ اُن پیارے در و دیوار پر جی بھر کے پیار آیا


کرم سے جھولیاں بھر لیں خزانے ناز نے لوٹے

مرے کاسے میں حصہ خیر کا بھی بے شمار آیا

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

آج ہے جشنِ ولادت مرحبا یامصطَفٰے

اے جلوہء رب کے نشاں نور خدائے دو جہاں

چُن چُن مَیں حرفاں دے موتی ہار بناواں نعتاں دے

مشکل میں ہیں نبیﷺ جی

جو اہلِ دل ہیں، کیفیت سے کب باہَر نکلتے ہیں

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

سبھی مخلوق کنبہ ہے خدائے پاک و برتر کا

ایہہ سب جلوے ایہہ سب روشن نظارے

جب کن فکاں کا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے