میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی
اگرچہ نہیں ہوں میں سعدی و جامی
فقط اتنی خواہش ہے حرفِ سخن کی
رہے میری نس نس میں ان کی غلامی
نگاہیں جمی ہیں مری راستے پر
پیامِ سفر لے کے آئے پیامی
ازل سے ہے تشنہ یہ تیرا بھکاری
مٹا دیجئے یا نبی تشنہ کامی
ترا نام ہے رفعتوں پر فروزاں
تجھی کو ملا ہے عروجِ دوامی
کبھی خواب سر گوشیاں ہوں مقدر
سماعت کروں تیری شستہ کلامی
ترے سنگِ در کی ہے کیا شان آقا
فرشتے مچلتے ہیں بہرِ سلامی
بچھائی ہیں پلکیں ترے راستے میں
عنایت ہو پلکوں کو اوجِ خرامی
وہ تیرے خیالوں میں مشغول بندہ
تری نعت کہتا ہے اشفاقؔ نامی
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان