مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں

اُن کی دہلیز کے قابل مَیں اگر ہو جاؤں


اُن کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یا رب

کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جاؤں


زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا

اپنی مُٹّھی میں وہ لے لیں تو گُہر ہو جاؤں


میرا محبوب ہے وہ راہبرِ کون و مکاں

جس کی آہٹ بھی مَیں سُن لُوں تو خضر ہو جاؤں


اِس قدر عشقِ نبی ہو کہ مِٹا دُوں خود کو

اس قدر خوفِ خدا ہو کہ نڈر ہو جاؤں


ضرب دوں خود کو جو اُن سے تو لگوں لا تعداد

وُہ جو مُجھ میں سے نِکل جائیں صِفر ہو جاؤں


آرزو اب تو مظفّر جو کوئی ہے تو یہ ہے

جتنا باقی ہُوں مدینے میں بسر ہو جاؤں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

نبیوں کے نبی

تو میری تقدیر تو میرا ایمان اے میرے سلطان

وجود چاہے فرشتو عدم میں رکھ دینا

نبی کے راستے کی خاک لوں گا

پُکار مُجھ کو نہ دُنیا چلا ہُوں سُوئے رُسولؐ

آنکھیں بچھا پَیروں تلے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

نبی کا نام جب میرے لبوں پر رقص کرتا ہے

مُفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی

عجب سرورِ صدا اُس کا دھیان دیتا ہے