پُکار مُجھ کو نہ دُنیا چلا ہُوں سُوئے رُسولؐ

پُکار مُجھ کو نہ دُنیا چلا ہُوں سُوئے رُسولؐ

تجھے تلاش مِری مُجھ کو جستجوئے رُسولؐ


مَیں کیوں نفاذِ قیامت کا انتظار کروں

مِری بہشت ہے شہرِ رسُولؐ کُوئے رسُولؐ


مَیں جب سے آپ کے دَر سے لپٹ کے آیا ہُوں

مِرے وجود میں رچ بس گئی ہے بُوئے رسُولؐ


نقوشِ پائے مُحمّدؐ مِرا قبیلہ ہے

اور اس قبیلے کی سردار آرزُوئے رسُولؐ


تمام عُمر کے سجدوں کو غُسل کروادُوں

جو دستیاب ہو اِک قطرۂ وضوئے رسُولؐ


سماعتوں کی بھی معراج ہوتی رہتی ہے

مَیں سُنتا رہتا ہُوں قرآں سے گفتگوئے رسُولؐ


مَیں کیسے اُن کے خد و خال بھُول سکتا ہُوں

کِیا ہُوا ہے نگاہوں نے حفِظ رُوئے رسُولؐ


ضمیر و ذہن کو سیراب کرتی رہتی ہے

مِرے لہُو سے گُزرتی ہے آبجُوئے رسُولؐ


ہتھیلیوں پہ مری مہر و ماہ رکھّے ہیں

کھڑا ہُوا ہُوں مظفّر میں رُوبروئے رسُولؐ

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

قدم قدم پہ خدا کی مدد پہنچتی ہے

نبیوں کے نبی

تو میری تقدیر تو میرا ایمان اے میرے سلطان

وجود چاہے فرشتو عدم میں رکھ دینا

نبی کے راستے کی خاک لوں گا

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں

آنکھیں بچھا پَیروں تلے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

نبی کا نام جب میرے لبوں پر رقص کرتا ہے

مُفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی