مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش
ہو نور نور مرا قریہء نظر اے کاش
گلِ نظارہ کی خوشبو سے صحنِ جاں مہکے
زرِ عطا سے بھرے کاسہ ہنر اے کاش
اتارنے کے لیے اشک آئنوں میں وہ عکس
نظر کے سامنے پھر ہو نبیؐ کا در اے کاش
کروں مدینے میں شام ِ طرب کا استقبال
ستارہ ہو مری قسمت کا اوج پر اے کاش
اترتی دیکھوں سَحَر روز اُن کے قدموں میں
دُعا ئے نیم شبی میں ہو یہ اثر اے کاش
ہیں جس کی خاک میں آسُودہ رحمتؐ ِعالم
وہی دیار بنے میرا مستقر اے کاش
سفر عدم کا جو درپیش ہو مجھے تائبؔ
دیارِ نور کی خوشبو ہو ہمسفر اے کاش
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب