میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی

میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں بچھاتے بچھاتے

تیری حسرتوں میں تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے


میرا یہ ہے ایماں یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفی ﷺسا نہ کوئی حسیں ہے

کہ رخ ان کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے


قیامت کا منظر بڑا پر خطر ہے مگر مصطفیﷺ کا جو دیوانہ ہو گا

وہ پل پے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی ﷺ کا لگاتے لگاتے


میرے لب پے مولا نہ کوئی صدا ہے فقط مجھ نکمے کی یہ ہی دعا ہے

میری سانس نکلے در مصطفیﷺپے غم دل نبی ﷺ کو سناتے سناتے


یہ دل جب سے عشق نبی میں پڑا ہے نہ دن کی خبر ہے نہ شب کا پتہ ہے

آقا اب تو بصارت بھی کم ہو گئی ہے تیرے غم میں آنسو بھاتے بھاتے


یہ ماناکہ اک دن آنی قضا ہے مگر دوستو تم سے یہ التجا ہے

کہ شہر محمد ﷺکی ہر اک گلی سے جنازہ اٹھانا گھماتے گھماتے


نہ کعبے سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہی ہے

جو مل جائے نقش کف پائے احمدﷺ تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

اُن کا خیال دل میں ہے ہر دم بسا ہوا

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

رتبہ ایہ کیڈا بی بی آمنہؓ دے لال دا

یا محمدﷺ نور مجسم یا حبیبی یا موالائی

نبیؐ کی یاد ہے سرمایہ غم کے ماروں کا

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سُناتے جائیں گے

اللہ کی رحمت بن کر سرکارِ مدینہ آئے

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

تُو کُجا من کُجا

کر ذکر مدینے والے دا