میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول

میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول

میں کسی اور تجسّس میں رہوں نا ممکن


جالیاں روضہء اقدس کی یہ دیکھ آیا ہے

اور لے جائے کہیں میرا جنوں نا ممکن


بخش دیتا نہیں جب تک مری اُمت کو خدا

بولے سرکار کہ اس دل کو سکوں نا ممکن


سر کے بل چل کے بھی تھکتا نہیں مدحت میں قلم

میں اُٹھاؤں تو یہ کہتا ہے اُٹھوں نا ممکن


ان کی سیرت سے بیگانگی ورنہ لوگو !

اُن کی اُمت کا ہو یہ حالِ زبوں نا ممکن


ایک شب آپ نے بخشا مجھے اپنا دیدار

ماسوا اس کے تمنّا میں کروں نا ممکن


اُن کی زُلفوں کی ہوا کھائی تو بولی یہ صبا

اب کسی گُل میں گزارا میں کروں نا ممکن


جو محمد کا ہے دیوانہ وہ د ل ہے آزاد

کوئی چاہے اسے قابو میں کروں نا ممکن


وہ جسے چاہیں ادیبؔ اس کو عطا کرتے ہیں

ہر کسی کو ملے یہ سوزِ دروں نا ممکن

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

کچھ آسرے کسب فیض کے ہیں، کچھ آئنے کشف نور کے ہیں

نعت کیا لکھوں؟ تخیل ورطۂ حیرت میں ہے

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

غماں نے لا لیا ہر طرف ڈیرا یا رسول اللہ

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی

شاناں والا ذیشان نبی کل نبیاں دا سلطان نبی

آواز پانچ وقت لگاتی ہے مومنوں

جے آقاؐ دی نظر ہو جاوے

دل مرا دنیا پہ شیدا ہوگیا

سوالی تیرے نیں خاکی تے نوری یا رسول اللہ