مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

صدائے درد و الم بس مرے نبیؐ تک ہے


بڑے وثوق سے تاریخ نے یہ لکّھا ہے

کہ عظمتوں کا سفر اُن کی پیروی تک ہے


اکیلے نکلے تھے غارِ حرا سے خالی ہاتھ

جہانِ کفر کو دھڑکا مگر ابھی تک ہے


نبیؐ کے قرب کی منزل ابد ابد کی خوشی

دکھوں کا سلسلہ دُنیا کی زندگی تک ہے


درِ حضورؐ پہ علم و شعور گر نہ جھُکے

تو دسترس تری کیسے پھر آگہی تک ہے


بچانا خود کو تکبر کی سب ادائوں سے

یہ اُن کی نظرِ کرم تیری عاجزی تک ہے


کوئی نہ مفلسِ دنیا ہمیں کہے لوگو

پہنچ ہماری بھی سب سے بڑے سخی تک ہے


شکیلؔ نعتِ نبیؐ ہو تو اس حضوری سے

زمانہ یہ نہ کہے بات شاعری تک ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

یہ میری آنکھ ہوئی اشکبار تیرےؐ لیے

نعرۂ صلِ علیٰ کے جشنِ سرور کے چراغ

کبھی گُل رُو کے شانوں پر علی مولا عیاں دیکھے

اوہ آجاون میرے ویہڑے ایہو منگدا دُعا بیٹھا

نہ مرے سخن کو سخن کہو

رب دے محبوب آ گئے ربّ دے دلدار آگئے

تشریف لائی ذاتِ رسالت مآب آج

اللہ ہمیں کر دے عطا قُفلِ مدینہ

ہر طرف نُور پھیلا ہوا دیکھ لوں

اُن کی طرف بڑھیں گے نہ لُطفِ خد اکے ہاتھ